کیا سبب ہے کہ ماضی میں اس قدر امراض نہیں تھے، جتنے آج ہیں۔
دراصل یہ بیسویں صدی کا تماشا ہے، ورنہ اس
سے قبل بیماریاں تو ہوتی تھیں، مگر آج کل کے امراض سے مختلف تھیں، مثلاً
حادثات، غذائی قلت، آفات اور جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد۔ بیسویں صدی کی
ابتدا سے قبل ہماری غذائیں زیادہ تر زمین سے حاصل ہوتی تھیں، یعنی کھیتوں
سے، جو زیادہ تر سبزی جات، دالوں اور پھلوں پر مشتمل تھیں۔ اگر گوشت وغیرہ
بعض اوقات پکتا تھا تو خوشی کے مواقع پر پکتا تھا۔ شہروں میں گوشت زیادہ
کھایا جاتا ہے۔ زمانۂ ماضی میں مرغیاں دوڑتی پھرتی تھیں اور اپنی مرضی کی
غذا کھاتی تھیں۔ آج کل شیور کی مرغیاں پنجروں میں بند اور موٹی ہوتی ہیں
اور اپنی پسند کی غذا نہیں کھاتیں، بلکہ ان کو زیادہ تر ایسی غذا دی جاتی
ہے، جس میں حیوانی اجزا شامل ہوتے ہیں۔
ماضی بعید میں چلنا پھرنا عام تھا اور
دیہات کی زندگی میں نہایت زیادہ تھا، بلکہ یہ عام رواج تھا کہ ایک دوسرے سے
ملاقات کے لیے پیدل سفر کیا جاتا تھا۔ بیسویں صدی کی ابتدا سے قبل نہ موٹر
گاڑیاں تھیں اور نہ ہوائی جہاز۔ جبکہ اب طرز زندگی ہمیشہ بیٹھے رہنے اور
سوارری کے استعمال کا ہے۔ گزشتہ صدی میں تلاش روزگار کے سلسلے میں دیہات سے
شہروں کی جانب بہ کثرت نقل مکانی ہوئی ہے، جس نے ہماری زندگی پر اثرات
ڈالے ہیں۔ شہروں میں نقل و حرکت کے لیے ہم ذریعہ نقل و حرکت کے انتظار میں
رہتے ہیں، اب سائیکل کے بجائے رکشا کے زیادہ عادی ہو گئے ہیں۔
دیہات کے طرز حیات میں باہمی ملنا جلنا عام
تھا۔ شہروں کی زندگی میں تنہائی کا احساس ہے، جس کے نتیجے میں ذہنی امراض
پیدا ہو رہے ہیں۔ کوئی ایسا نہیں ہے، جس سے اپنی پریشانیوں کے ضمن میں
گفتگو کی جائے اور وہ دل جوئی کرے۔
آج حملۂ قلب، انجائنا، ذیابیطس قسم 2 اور
بلند فشار خون (بلڈ پریشر) عام ہیں، جن کی وجہ سے ہماری حیوانوں سے حاصلہ
غذا اور چلنے پھرنے کی عادات نہ ہونا ہے۔ اب یہ امراض ہر گھر کی دہلیز پر
دستک دے رہے ہیں اور عام ہوتے جا رہے ہیں۔ اب ان عوارض کا مداوا کس طرح ہو
سکتا ہے، اس کے لیے ’’دوڑ پیچھے کی طرف‘ اے گردش ایام تو۔‘‘
تندرستی کے لیے غذا کو زیادہ تر کھیتوں سے
حاصل کرنا چاہیے۔ چلنا پھرنا ہماری اولین عادت ہونی چاہیے اور یہ طرز حیات
اگر تمام اہل خانہ کا ہو تو بیماریوں کا سدباب ہوسکتا ہے اور ہم تندرست اور
خوش حال ہوسکتے ہیں۔